حضرت سلیمان علیہ السلام
حضرت
سلیمان علیہ السلام کو ایسی بے مثال حکومت اور سلطنت حاصل تھی کے صرف ساری دنیا پر
ہی نہیں بلکہ جنات اور طیور اور ہوا پر بھی اُن کی حکومت تھی ۔۔۔ مگر ان سب سامانوں کےباوجود موت سے ان کو بھی نجات نہ تھی اور یہ موت تو
مقررہ وقت پر آنی تھی بیت المقدس کی تعمیر جو حضرت داؤد علیہ السلام نے شروع کی
ملک شام میں جس جگہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا خیمہ گاڑا گیا تھا ٹھیک اسی جگہ
حضرت داؤد علیہ السلام نے بیت المقدس کی بنیاد رکھی مگر عمارت پوری ہونے سے قبل ہی
حضرت داؤد علیہ السلام کی وفات کا وقت آن پہنچا۔ اور آپ نے اپنے فرزند حضرت سلیمان
علیہ السلام کو اس عمارت کی تکمیل کی وصیت فرمائی چنانچہ حضرت سلیمان علیہ السلام
نے جنوں کی جماعت کو اس کام پر لگایا اور عمارت کی تعمیر ہوتی رہی۔ جنات کی طبعیت
میں سرکشی غالب تھی۔۔۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے خوف سے جنات کام کرتے تھے ان کی
وفات کا جنات کو علم ہوجائے تو فورا کام چھوڑ بیٹھیں اور تعمیر رہ جائے یہاں تک کہ
آپ کی وفات کا وقت بھی قریب آگیا اور عمارت مکمل نہ ہو سکی تو آپ نے یہ دعا مانگی کہ
الٰہی میری موت جنوں کی جماعت پر ظاہر نہ ہونے پائے تاکہ وہ برابر عمارت کی تکمیل
میں مصروف رہیں اور انسبھوں کو علم غیب کا جو دعویٰ ہے وہ بھی باطل ٹھہر جائے۔یہ
دعا مانگ کر آپ محرا ب میں داخل ہو گئے اور اپنی عادت کے مطابق اپنی لاٹھی ٹیک کر
عبادت میں کھڑے ہو گئے اور اسی حالت میں آپ کی وفات ہو گئی مگر جن مزدور یہ سمجھ
کر کہ آپ زندہ کھڑے ہوئےہیں۔برابر کام میں مصروف رہےاور عرصہ دراز تک آپ کا اس
حالت میں رہنا جنوں کے گروہ کے لیے کچھ باعث حیرت اس لیے نہیں ہوا کہ وہ با رہا
دیکھ چکے تھے کہ آپ ایک ایک ماہ بلکہ کبھی کبھی دو دو ماہ برابر عبادت میں کھڑے
رہا کرتے تھے۔یہاں تک کہ بحکم الٰہی دیمک نے آپ کے عصا کو کھا لیا اور عصا گر جانے
کے سے آپ کا جسم مبارک زمین پر آگیا اور اس وقت جنوں کی جماعت اور تمام انسانوں کو
پتہ چلا کہ آپ کی وفات ہو گئی ہے۔قرآن مجید میں اللہ تعالی نے اس واقعہ کو ان
لفظوں میں بیان فرمایاہےکہ"پھر جب ہم نے ان )حضرت سلیمان ( پر موت کا حکم
بھیجا تو جنوں کو ان کی موت دیمک ہی نے بتا ئی جو ان کے عصا کو کھا رہی تھی پھر جب
حضرت سلیمان زمیں پر آگئے تو جناں کی حقیقت کھل گئی اگر وہغیب جانتے ہوتے تو وہ اس
ذلت کےعذاب میں اتنی دیر تک نہ پڑے رہتے۔" )سورہ سبا( رکوع2 پارہ22 )
0 comments:
Post a Comment
Thanks for your comments.