respecting your parents story image



ابو اگر آپ نے بھی زندگی میں تھوڑی محنت کر لی ہوتی تو آج ہمارا بھی اپنا گھر ہوتا۔ منیر تیوری چڑھا کر بولا
بوڑھے بیمار باپ کی آنکھ کے کونے سے ایک آنسو نکل کر خاموشی سے چہرے پر تیرتا ہوا گریبان میں جا کرجذب ہو گیا۔ بیماری نے ویسے بھی قریب المرگ کیا ہوا تھا۔ موت کا وقت آ پہنچا تو باپ کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔ تدفین کے وقت ایک ادھیڑ عمر شخص متانت کے ساتھ چلتا ہوا منیر کے پاس آیا اور بولا:
بیٹا! کیا تم ڈاکٹر ہو؟ منیر نے اثبات میں سر ہلایا اور حیرانی سے پوچھا؛
آپ مجھے کیسے جانتے ہیں؟ میں تو آپ کو نہیں جانتا۔
وہ صاحب کہنے لگے بیٹے میں اور تمہارے والد ایک ہی جگہ کام کرتے تھے۔وہ چوبیس گھنٹوں میں سے سولہ گھنٹے کام کرتے تھے۔ تین نوکریاں ایک ایک وقت میں ، کیونکہ انہوں نے تمہیں ڈاکٹر بنانا تھا۔ اس نے اپنا گھر نہیں بنایا کہتا تھا بیٹا ڈاکٹر بن گیا تو گھر بھی بن جائے گا۔ اتنی لگن تھی اسکو اس لیے مجھے یقین تھا تم ڈاکٹر بن ہی گئے ہو گے۔
ڈاکٹر منیرپھوٹ پھوٹ کر رو دیا۔ اسے یاد آنے لگا جب ابو روز دیر سے گھر آتے تھے تو دفتر میں کام کی زیادتی کا بتایا کرتے تھے۔ انہی سختیوں نے انہیں وقت سے بہت پہلے بوڑھا کر دیا تھا۔ گھر میں غربت کے باوجود اسکی فیس کبھی لیٹ نہیں ہوئی تھی۔ کالج کی تمام ضروریات ، موٹر سائیکل وغیرہ کبھی کسی چیز کے لیے اسےمحرومی کا احساس نہیں ہوا۔ 
یا اللہ میرے ابو کے درجات کو بلند کر! شرمساری اور پچھتاوے کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں اس کے دل کی گہرائیوں سے دعا نکلی۔

0 comments:

Post a Comment

Thanks for your comments.

 
Blogger TemplateKhushiyon Ka Khazana © 2013. All Rights Reserved. Powered by Blogger
Top