"وہ مر گيا ہے !" يہ الفاط تھے يا تير جو دل ميں چبھ گۓ..
وہ ميرا کچھ نہيں لگتا تھا مگر اس کی موت نے جيسے مجھ سے ميرے کسی اپنے کو چھين ليا تھا..
مگر ٹہريے ! آپ کو کيا پتا , ميں کس کے بارے ميں بات کر رہا ہوں اور مجھے اس کی موت کا اتنا غم کيوں ہوا..؟
ميں بس ميں ہر صبح وہاں سے گذرتا تھا اور روزانہ ہی اس بوڑھے آدمی کو بلڈنگ کے باہر سٹول پر بيٹھے ديکھتا تھآ .. بس کا سٹاپ عين اس بلڈنگ کے نيچے تھا.. جونہی بس رکتی' بابا چوکنا ہو کر بيٹھ جاتا اور اميد افزا نظروں سے بس کی طرف ديکھنا شروع کر ديتا مگر جلد ہی جيسے مايوس ہو کر اوپر آسمان پر کچھ تلاش کرنا شروع کر ديتا..
ايک دن.. دو دن.. جب پورا ايک ماہ گزر گيا اور ہر روز بس کی کھڑکی سے مجھے يہی منظر نظر آيا تو مجھے تجسس نے آ گھيرا.. ايک دن ميں نے جاب سے دوسرے دن کی چھٹی لی اور دوسرے دن معمول کے مطابق اپنے روٹ کی بس پکڑی اور آج جب بس اس سٹاپ پر رکا تو ميں نیچے اتر آیا..
دھيرے دھيرے قدم اٹھاتا ميں بابا جی تک پہنچا .. سلام کيا.. جواب ميں بابا جی نے دعا دی اور سواليہ نظروں سے ميری طرف ديکھا..
ميں نے اپنے تجسس کا حال کہہ سنايا.. ميری بات ابھی ختم نہيں ہوئی تھی کہ بابا جی کی آنکھوں ميں آنسو آ گۓ.. آہستہ سے بولے.. "بيٹا ! ميں اپنے بيٹے کا انتظار کرتا ہوں.. شائد اسے کبھی اپنی مصروف زندگی ميں سے کچھ وقت مل جاۓ تو وہ ميرا حال پوچنھے ہی چلا آۓ.. آج ايک ماہ گذر گيا.." اور اس کے آگے بابا جی کچھ نہ کہہ سکے..
جب بابا جی کی طبيعت قدرے سنبھلی تو انہوں نے مجھے بتايا کہ ان کی بيگم ايک سال پہلے انہيں اور ان کے جوان بيٹے کو داغ مفارقت دے گئ تھيں.. بابا جی کی عمر کافی تھی يعنی لگ بھگ 75 سال.. ان کی ايک بہو اور 3 پوتے پوتياں بھی تھے جن کے ذکر سے ہی ان کی آنکھوں ميں چمک آگئ تھی مگر وہ سب نئے گھر ميں جانے کے شوق ميں يہ بھول ہی گئے کہ اس بزرگ کو بھی ان کے ساتھ ہی جانا ہے اور ان کے ساتھ ہی رہنا ہے..
انہوں نے ايک ايسا گھر ديکھا جس ميں اتنے ہی کمرے تھے جو ان سب کے ليے کافی تھے اور بابا جی کو تو جيسے بھول ہی گۓ تھے.. جب انہوں نے استفسار کيا تو جواب ملا "يہاں آپ کو کوئی تکليف نہيں.. آپ اسی گورنمنٹ کے گھر ميں ہی رہيے.. ہم ہفتے ميں 2 بار آپ کو آکر مل جايا کريں گے.."
"بيٹا ! آج پورا 1 ماہ ہو گيا ہے ان کو گئے ہوۓ.. کسی نے دوبارہ پلٹ کر خبر نہيں لی.. روزانہ اس آس پر باہر بيٹھ جاتا ہوں اور ہر آنے والی بس کو ديکھتا ہوں کہ شايد آج ميرا بيٹا مجھ سے ملنے آجاۓ.."
مجھے يہ سن کر دلی افسوس ہوا کہ کيا ماں باپ اس دن کے ليے اولاد کو بڑا کرتی ہيں کہ وہ ان کے بڑھاپے ميں انہيں اکیلا چھوڑ دے..؟
اس وقت تو ميں بوحھل دل ليے وہاں سے نکل آیا مگر ميں ذہن سے يہ بات نہيں نکال سکآ اور ذہنی دباؤ کے باعث بيمار پڑ گیا .. اگلے 4 دن جاب سے جھٹی لينی پڑی.. صحت يابی کے بعد آج ميں پھر اسی راستے سے گذرا اور آج بابا جی اپنی جگہ پر نہيں تھے.. حيرانی ہوئی مگر ساتھ ہی دل ميں خيال آيا شايد ان کا بيٹا آ گيا ہوگا اسی ليے وہ آج وہاں نہيں تھے اور نہ ہی ان کا سٹول.. مجھے خوشی ہوئی کہ چلو بابا جی کا انتظار تو ختم ہوا..
شام کو بابا جی کو مبارک دينے کے ليے راستے ميں سے پھول خريدے اور ان کے سٹاپ پر اتر گیا .. بلڈنگ کا مين دروازہ بند تھا.. پہلی منزل کی گھنٹی بجائی.. ايک خاتون نے دروازہ کھولا تو ميں نے اس سے بابا جی کے متعلق پوچھا.. يہ سنتے ہی اس نے کہا.. "وہ مر گيا ہے.." مجھے اپنے کانوں پر يقين نہيں آيا..
ميرے مزيد پوچھنے پر وہ بولی کہ 2 دن پہلے وہ حسب معمول اپنے سٹول پر بيٹھے تھے کہ اچانک ايک بس رکی اور انہيں اس ميں سے اپنا بيٹا اترتا نظر آيا.. بابا جی کو اپنی آنکھوں پر يقين نہيں آيا.. اپنے سٹول سے اٹھے اور بيٹے کی طرف چل پڑے ليکن بس سے اترنے والا ان کا بيٹا نہيں تھا.. بابا جی کو دھچکا لگا اور ان کا دل بيٹے کا انتظار کرتے کرتے رک گيا..
ميرے ہاتھوں سے پھول گر گۓ ۔
منقول
0 comments:
Post a Comment
Thanks for your comments.
Click to see the code!
To insert emoticon you must added at least one space before the code.