دُرِشہوار راستے میں ہی تھی جب مغرب کی اذان ہوئی ...
آج جاب سے آتے وقت کافی دیر ہو چکی تھی.وہ جیسے ہی گھر پہنچی مغرب کا وقت تقریبا ختم ہی ہو چکا تھا اُس نے جلدی جلدی وضو کیا اور ویسے ہی گیلے ہاتھ پاؤ ں لیکر جانماز پر نیت باندھ کر کھڑی ہو گئی...اُس کے چہرے سے بار بار پانی ٹپک رہا تھا
نماز کے دوران ہی اُسے یاد آیا کہ وہ امی کی دوائیاں لانا بھول گئی تهی... آج آفس میں بہت کام تھا کھانا کھانے کا بھی وقت نہیں ملا..
وہ بہت تھک چکی تھی سجدے میں جاتے ہی اُس نے نماز میں دھیان لگانے کی بہت کوشش کی لیکن اُسے لگا, وہ ایک ایسے میدان میں تھی جہاں پر بہت سارے لوگ جمع تھے سب کے ہاتھ میں ایک ایک کتاب تھی،.،
اُسے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے تبھی کسی نے ایک کتاب اُس کے ہاتھ میں بھی تھما دی جس پر اُس کا نام لکھا تھا اُس نے کتاب کھولی جس میں اُس کے اچھے برے اعمال لکھے ہوئے تھے اُس کا دل بیٹھ گیا اُس نے سوچا یا اللہ کیا وہ مر گئی ہے ؟
اُس نے سب طرف نظریں گھمائیں سب ایک لائن میں کھڑے اپنی اپنی کتاب جمع کرا رہے تھے
وہ سمجھ گئی تھی کہ وہ اب مر چکی ہے اُس کا بھی حساب کتاب ہونا ہے اُس نے بھی اپنی کتاب جمع کرائی اور انتظار کرنے لگی ...
جب سب لوگوں کی کتابیں جمع ہو گئں تب فیصلے کا وقت آیا اُسے اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا سب سے پہلے اُس کا نام لیا گیا..
اُس کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا اُس نے سوچا نہ جانے آج اُس کا کیا ہوگا ؟ آج اُس کا انجام کیاہوگا ؟
تبهی آواز آئی جہنم...
اُسے یقین نہیں آیا کہ اُس کا انجام یہ ہوگا وہ زور زور سے رونے لگی اُس کے گالوں سے آنسو بہنے لگے..
تبھی دو خطرناک ساے آے اور اُسے گھسیٹنے لگے وہ چیختی رہی "مجھے بچاؤ کوئی مجھے بچاؤ سب سہمی ہوئی نظروں سے اُسے دیکھتے رہے کوئی بچانے کے لیے آگے نہیں آیا...
اُس نے چلّا کر کہا "میں نے کبھی کچھ غلط نہیں کیا، کبھی جھوٹ نہیں بولا کسی کی چغلی نہیں کی،سود نہیں کھایا، پھر مجھے کیوں جہنم میں پهینک رہے ہو ؟ "
کوئی کچھ نہیں بولا صرف اُسے کھینچتے رہے.اب وہ جہنم کی آگ محسوس کر سکتی تھی.اسکا منہ تھوڑی دور رہ گیا.اور اس میں سے ایسی آواز آ رہی تھی جیسے کوئی جانور رسّی توڑ کر اُس پر حملہ کرنے کی کوشش کر رہا ہو..
تبھی اُسے اپنی نماز یاد آئی... وہ زور زور سے چلانے لگی "میری نماز, میری نماز کہاں ہے ؟؟؟ "
جہنم کا منہ سامنے تھا. "دنیا میں, میں ذرا سی گرمی برداشت نہیں کرتی تھی ,یا اللہ اس گرمی کو کیسے برداشت کرونگی ؟؟"
اب وہ جہنم کے دروازے پر تھی اور زور زور سے رو رہی تھی
اپنی نماز کو آواز دے رہی تھی لیکن کوئی سننے والا نہیں تها.
وہ چلاّئی لیکن کوئی فرق نہیں پڑا.
ایک ساے نے اُسے جہنم میں دھکاّ دے دیا اور وہ جہنم کی تپتی آگ میں گرنے لگی اُسے لگا یہ ہی اُس کا حشر ہے.
اتنے میں ایک ہاتھ نے اُسے پکڑ لیا.
اُس نے سر اٹھا کر دیکھا تو دہانے پر ایک بزرگ کھڑے تھے.سفید ڈاڑهی اور نورانی چہرہ لئے مسکرا رہے تھے.
نیچے دوزخ کی آگ اُسے جھلسانے کے لیے مچل رہی تھی.
لیکن اس بزرگ کا ہاتھ لگتے ہی اسکی تپش ٹھنڈک میں بدل گئ،.
اُس نے ان سے پوچھا آپ کون ہیں ؟
انہوں نے اُسے باہر کھینچ کر کہا تمہاری نماز.... اُسے غصہ آگیا اُسے نے کہا, " آپ اتنی دیر سے کیوں آئے ہیں.? آپ اگر تھوڑی اور دیر سے آتے تو میں جہنمی بن چکی ہوتی.."
بزرگ نے مسکرا کر کہا وہ بھی تو اُنہیں آخری وقت میں پڑھا کرتی تھی.
بزرگ نے مسکرا کر کہا وہ بھی تو اُنہیں آخری وقت میں پڑھا کرتی تھی.
تبھی اُس کی نیند کھل گئی.
کوئی اُسے زور زور سے ہلا رہا تھا..
اُس نے دیکھا امی اُس کے پاس کھڑی ہوئی ہیں اور بول رہی ہیں کیا ہوا نماز نماز کیوں چلاّ رہی ہو؟؟؟
اُس کی خوشی کا کوئی ٹهکانا نہیں رہا...
وہ زندہ تھی..اُس نے امی کو گلے سے لگایا اور کہا آج کے بعد میں کبھی نماز میں دیر نہیں کرونگی ...،
0 comments:
Post a Comment
Thanks for your comments.