"اماں جی آج ماسٹر صاحب نے پھر کلاس سے نکال دیا"
میں اس وقت بڑے صاحب کی حویلی میں کام کر رہی تھی جب میرے چھوٹے بیٹے نے آ کر بتایا..میرے خاوند کو فوت ہوئے 3 سال ہو چکے هیں وه بڑے صاحب کے ڈرائیور تھے جب گھر کا پہیہ رکنے لگا تو مجبورا ان کے ہاں ملازمت کرنی پڑی میرے دو بیٹے ھیں بڑے والا پانچویں اور چھوٹے والا تیسری جماعت کا طالبعلم ھے. حال ہی میں شہر سے نئے ماسٹر آے تھے آتے ہی صاف ستھرے کپڑوں اور جوتوں کا اصول رائج کیا لیکن کم آمدنی کی وجہ سے ہمیشہ اترن ہی بچوں کے حصے میں آئی اور اسی وجہ سے بچے سکول سے باہر نکال دئیے جاتے...
"اچھاااا ٹہرو میں بڑے صاحب سے بات کرتی ہوں!!"
میں نے ڈوپٹہ ٹھیک کرتے ہوئے جواب دیا. بڑے صاحب کے حامی بھرنے پر میں بھی ان کے ساتھ سکول جانے لگی..
"لیکن چوھدری صاحب ایسے تو کام نہئں چلے گا دیکھئے سب صاف ستھرے اجلے کپڑے پہنتے ہیں"
بات کرنے پر ماسٹر صاحب نے جواب دیا
"اور ویسے بھی غریب لوگ کہاں تک تعلیم حاصل کریں گے بھلا آج نہیں تو کل کس مکینک کی ہی دوکان پہ بیٹھنا ہے تو آج ہی کیوں نہیں"
ماسٹر صاحب نے طنزیہ مسکراہٹ سے مجھے دیکھا
"چلیں آپ کہتے ہیں تو بٹھا لیتا ھوں لیکن یہ کلاس سے تھوڑا ہٹ کر بیٹھے گا"
میرے لیے اتنا ہی کافی تھا. میں جانے کے لیے مڑ گئی
"ہاں تو بچو ہمارے پیارے نبی پاک (صلی الله علیه و آله و سلم) نے یتیم کی کفالت کے بارے میں کیا حکم دیا".
ماسٹر صاحب کی آواز میرے کانوں سے ٹکرائی نا چاهتے ہوئے بھی آنسو بہنے لگے.......
0 comments:
Post a Comment
Thanks for your comments.