ایک دلچسپ حکایت
ایک سودا گر کی تھیلی جس میں چار سو دینا ر تھے، گم ہو گئی۔ اس نے ڈھول پٹوا کر اعلان کیا کہ اس طرح کی تھیلی گم ہوگئی ہے جس شخص کو مل جائے وہ لے آئے تو اُسے دو سو دینار انعام دیا جائے گا۔ اتفاقاً یہ تھیلی ایک غریب شخص کو مل گئی۔ وہ اُسے لے کر مالک کے پاس انعام کی اُمید میں پہنچ گیا۔ لیکن سودا گر اپنی تھیلی کو دیکھ بد نیّت ہو گیا اور اس غریب آدمی سے کہنے لگا’’ اس تھیلی میں نہایت قیمتی موتی بھی تھے۔ کیا وہ بھی اس کے اندر ہیں؟‘‘ وہ آدمی بڑا گھبرایا اور سمجھ گیا کہ یہ اب دھوکا کر رہا ہے اور انعام نہ دینے کے لیے جھوٹ بولنے لگا ہے۔ اب ان دونوں میں جھگڑا شروع ہو گیا۔ آخر یہ دونوں لڑتے ہوئے فیصلہ کے لیے قاضی کے پاس پہنچے۔ قاضی نے اس غریب آدمی سے موتیوں کے بارے میں پوچھاتو وہ قسم کھا کر کہنے لگا کہ تھیلی میں اسے دیناروں کے سوا اور کوئی چیز نہیں ملی۔ اب قاضی نے سودا گر سے پوچھا کہ بتائو وہ موتی کیسے تھے؟ سودا گر نے الٹی سیدھی باتیں کیں اور کچھ صحیح نہ بتا سکا۔ قاضی نے سمجھ لیا کہ یہ جھوٹ بول رہا ہے۔ اور جھوٹ سے مقصد اس کا یہ ہے کہ اپنے اعلان کے مطابق اسے انعام نہ دینا پڑے۔ قاضی نے کہا کہ میرا فیصلہ سنو! اے سودا گر! تمہارا دعویٰ ہے کہ تمہاری تھیلی گم ہو گئی جس میں دینار تھے اور موتی بھی تھے اور وہ موتی ایسے تھے اور یہ آدمی جو تھیلی لایا ہے اس میں کوئی موتی نہیں ہے لہٰذا میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ یہ تھیلی تمہاری ہے ہی نہیں۔ لہٰذا تم اپنی گم شدہ تھیلی کے لیے پھر سے اعلان کرائو۔ ممکن ہے تمہاری گم شدہ تھیلی تمہیں پھر مل جائے اور تم کامران و بامراد بن جائو۔ بہرحال یہ تھیلی تمہاری نہیں ہے۔ پھر قاضی نے اس غریب آدمی سے مخاطب ہو کر کہا: یہ تھیلی چالیس روز تک احتیاط سے رکھو۔ اگر اس کا کوئی دوسرا دعویدار نہ ہوتو یہ تمہاری
0 comments:
Post a Comment
Thanks for your comments.