درد بهری
کہانی.........
اور یہ روٹی ابّا کے لیے.. "
اس نے مٹی کی روٹی بنا کر توّے پہ ڈالی.. تب ھی بیرونی دروازے پر کھٹکا ھوا تھا..
دُرِ نجف نے گردن گھما کر دیکھا..
ابا اپنی سائیکل سمیت گھر میں داخل ھو رھے تھے.. وہ نہ جانے کس خیال کے تحت بھاگ کر ابّا کے پاس آئی تھی.. اور انکا ہاتھ تھام لیا تھا.. باپ کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی یہ معصوم سی کوشش بالکل غیر ارادی تھی..
" افوہ ،، ھٹو پیچھے.. ہاتھ دیکھے ھیں تم نے اپنے.. "
ابا نے اسکا مٹی سے لتھڑا ہوا ننھا سا ھاتھ سختی سے جھٹک دیا تھا..
"گھر میں داخل ھوتے ہی منحوس صورتیں سامنے آ کھڑی ھوتی ھیں.. "
انہوں نے بازو سے پکڑ کر اسے ایک طرف دھکیلا تو وہ لڑکھڑا کر گر گئی.. مٹی سے بنے ھوئے برتن اسکے گھٹنوں اور ہاتھوں کے زور سے چور چور ھو گئے تھے.. اسکی بڑی بڑی شفاف آنکھوں میں آنسو بہت جلد چلے آئے تھے..
اس نے پلٹ کر دیکھا..
ابا صحن میں بچھی چارپائی پر بیٹھ چکے تھے.. میلا کچیلا راشد انکی گود میں چڑھا بیٹھا تھا.. اور ابا شاپر میں سے سیب نکال کر دیتے ھوئے اسکے پھولے پھولے گالوں پر پیار کر رھے تھے..
دُرِ نجف کو اس لمحے ابا اور راشد دونوں ھی بہت برے لگے تھے..
" ابا نے مجھے پیار نہیں کیا ' راشد کو کیا ھے.. مجھے سیب نہیں دیا ' راشد نے پورا شاپر لیا ھے.. میں بھی ابا کو روٹی نہیں دونگی.. آج بھوکے رھیں گے وہ.. "
اس نے مٹی کی روٹی کو اپنے ھاتھوں سے مَسل دیا..
ساتھ ہی آنکھوں سے آنسو پھسل کر اسکے گالوں پر چلے آئے.. بے آواز روتے ھوئے اس نے ہاتھ کی پشت سے آنسو صاف کرنا چاھے تو مٹی کے کتنے ھی ذرّات ننھی آنکھوں میں گھس گئے.
اور یہ روٹی ابّا کے لیے.. "
اس نے مٹی کی روٹی بنا کر توّے پہ ڈالی.. تب ھی بیرونی دروازے پر کھٹکا ھوا تھا..
دُرِ نجف نے گردن گھما کر دیکھا..
ابا اپنی سائیکل سمیت گھر میں داخل ھو رھے تھے.. وہ نہ جانے کس خیال کے تحت بھاگ کر ابّا کے پاس آئی تھی.. اور انکا ہاتھ تھام لیا تھا.. باپ کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی یہ معصوم سی کوشش بالکل غیر ارادی تھی..
" افوہ ،، ھٹو پیچھے.. ہاتھ دیکھے ھیں تم نے اپنے.. "
ابا نے اسکا مٹی سے لتھڑا ہوا ننھا سا ھاتھ سختی سے جھٹک دیا تھا..
"گھر میں داخل ھوتے ہی منحوس صورتیں سامنے آ کھڑی ھوتی ھیں.. "
انہوں نے بازو سے پکڑ کر اسے ایک طرف دھکیلا تو وہ لڑکھڑا کر گر گئی.. مٹی سے بنے ھوئے برتن اسکے گھٹنوں اور ہاتھوں کے زور سے چور چور ھو گئے تھے.. اسکی بڑی بڑی شفاف آنکھوں میں آنسو بہت جلد چلے آئے تھے..
اس نے پلٹ کر دیکھا..
ابا صحن میں بچھی چارپائی پر بیٹھ چکے تھے.. میلا کچیلا راشد انکی گود میں چڑھا بیٹھا تھا.. اور ابا شاپر میں سے سیب نکال کر دیتے ھوئے اسکے پھولے پھولے گالوں پر پیار کر رھے تھے..
دُرِ نجف کو اس لمحے ابا اور راشد دونوں ھی بہت برے لگے تھے..
" ابا نے مجھے پیار نہیں کیا ' راشد کو کیا ھے.. مجھے سیب نہیں دیا ' راشد نے پورا شاپر لیا ھے.. میں بھی ابا کو روٹی نہیں دونگی.. آج بھوکے رھیں گے وہ.. "
اس نے مٹی کی روٹی کو اپنے ھاتھوں سے مَسل دیا..
ساتھ ہی آنکھوں سے آنسو پھسل کر اسکے گالوں پر چلے آئے.. بے آواز روتے ھوئے اس نے ہاتھ کی پشت سے آنسو صاف کرنا چاھے تو مٹی کے کتنے ھی ذرّات ننھی آنکھوں میں گھس گئے.
0 comments:
Post a Comment
Thanks for your comments.