ماں ...
وہ دیسی بدیسی سیانی عمر کے دوستوں کا ایک گروپ تھا جو یورپ کے کسی شہر کی ایک بار میں بیٹھے پی رہے تھے۔ باتوں باتوں میں ماں کے عالمی دن کے حوالے سے بات چل نکلی تو وہ ایک دوسرے سے انکی ماؤں کے بارے میں پوچھنے لگے۔ بچپن کی باتیں, شرارتیں , ماں کی محبت کی باتیں ہونے لگیں۔ دوران گفتگو ایک گورے بدیسی نے دیسی دوست کو بتایا کہ وہ کیسے اپنی ماں سے ملنے گیا جسے یاد بھی نہ تھا کہ آج ماں کا عالمی دن ہے اور پھر وہ اسکی ماں کا پسندیدہ کھانا کھانے گئے اور اس نے ماں کو نیا چشمہ تحفہ دیا۔ پھر ایسے ہی گورا دوست بولا علی تمھاری ماں کو کھانے میں کیا پسند ہے ؟
علی سوچنے لگا۔ کہ میری ماں کو کیا پسند ہے وہ بچپن کی یادوں میں کھو گیا کہ یاد آئے ماں کیا شوق سے بناتی تھی اپنے لئے۔ جب اس نے ماضی کے جھروکوں سے جھانکا تو دیکھ کر یاد آیا کہ وہ کس قدر غریب تھے باپ ایک مزدور اور بڑا کنبہ، دادی دادا بھی ساتھ، بمشکل دال روٹی چلتی تھی مگر اس کی ماں ایک سمجھدار اور کفایت شعار عورت تھی۔ سب سلیقہ سے چل رہا تھا۔ باوجود غربت کے سب کو وقت پر سادہ مگر اچھا کھانے پہننے کو ملتا تھا۔ گھر میں ماں ہفتے دس دن میں کسی نہ کسی کی پسند کی کوئی شے ضرور بنا لیتی تھی اس لئے کبھی غربت کا احساس شدت سے نہ ہوا۔ اس نے دنوں پھر ہفتوں پھر مہینوں اور پھر سالوں کے شب وروز کا جائزہ لیا گھر کے سارے افراد کی پسند نا پسند یاد آ گئی مگر ماں کو کھانے میں کیا پسند تھا یہ نہ مل سکا۔
"کہاں کھو گئے علی" گورے دوست نے پوچھا تو وہ چونکا۔
دو موٹے موٹے آنسو تیزی سے اس کے گالوں پر سے بھاگتے ہوئے اس جھولی میں گرتے سب دوستوں نے حیرت سے دیکھے۔ اور وہ رندھی ہوئی آواز سے بمشکل بولا " بچی ہوئی روٹی اور بچا ہوا سالن پسند ہے میری ماں کو"
0 comments:
Post a Comment
Thanks for your comments.