story image

یہ 1892ء کا ذکر ھے "اسٹینڈفورڈ یونیورسٹی" میں ایک اٹھارہ سال کا ایک نوجوان طالب علم اپنی یونیورسٹی کی فیس ادا کرنے کی تگ و دو میں مصروف تھا۔ وہ ایک یتیم لڑکا تھا وہ نہیں جانتا تھا کہ پیسوں کا انتظام کہاں سے کرے۔ اچانک اُس کے ذہن میں ایک خیال آیا، ایک ایسا خیال جس پر عمل درآمد کرنے سے اُس کی فیس کا انتظام ہوسکتا تھا۔
وہ اپنے دوست کے پاس گیا اور اُس سے مدد کی درخواست کی بالآخر مشورے سے یہ طے پایا کہ وہ یونیورسٹی میں ایک میوزیکل کنسرٹ کا انتظام کریں گے اور اُس سے حاصل ہونے والی آمدنی سے اپنی تعلیم کی فیس ادا کریں گے۔
وہ دونوں مل کر اُس دور کے عظیم پیانو نواز " پیڈریوسکی کے پاس گئے تاکہ اُسے کنسرٹ میں پرفارم کرنے کے لیئے راضی کیا جاسکی۔ پیڈریئوسکی کے مینیجر نے رقم کا تقاضہ کیا اور تقریباً دو ہزار ڈالزر میں معاملہ طے پا گیا۔ دونوں طالب علم دل و جان سے کنسرٹ کو کامیاب بنانے کی تیاریوں میں لگ گئے۔
بالآخر کنسرٹ کا دن آپہنچا۔ پیڈریئوسکی نے بہترین پرفارمنس دی لیکن بدقسمتی سے مُناسب پبلسٹی نہ ہونے کے باعث حاضرین کی کمی تھی۔ دونوں طالب علم ٹکٹ پوری طرح فروخت نہیں کر پائے تھے۔ اُنہیں اس کنسرٹ سے محض سولہ سو ڈالرز کی آمدنی ہوئی تھی۔ یہ بڑی شرمندگی کی بات تھی۔ اُنہوں نے پیڈریئوسکی کے پاس جانے کا فیصلہ کیا تاکہ اُسے حقیقت سے آگاہ کیا جاسکے۔
پیڈریئوسکی کے پاس پہنچ کر اُنہوں نے تمام رقم اُس کے سامنے ڈھیر کردی اور تمام واقعہ کہہ ڈالا۔ اس کے ساتھ ہی اُنہوں نے اُسے بقایا چار سو ڈالرز کی رقم بعد میں ادا کرنے کا وعدہ کیا۔
"نہیں، یہ قابل قبول نہیں۔۔!!" پیڈریئوسکی نے اُن کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔
"تم ان سولہ سو روپوں میں سے کنسرٹ پر آنے والے اخراجات کی رقم نکال کے اپنی فیس کی رقم اپنے پاس رکھو اور بچ جانے والی رقم مجھے دے دو"
دونوں طالب گُنگ کھڑے تھے۔
یہ اعلیٰ ظرفی اور مہربانی کا ایک نادر نمونہ تھا۔ پیڈریئوسکی کی اس بات نے ثابت کردیا کہ وہ کتنا عظیم انسان تھا۔
کہانی یہیں*ختم نہیں ہوتی۔۔۔!
پیڈریئوسکی بعد میں پولینڈ کا وزیر اعظم بن گیا۔ وہ پولش قوم کا ایک عظیم رہنما بن کر سامنے آیا۔ جنگ عظیم کے زمانے میں پولینڈ میں قحط کا سا سماں تھا۔ فصلیں تباہ ہوچکی تھیں اور تقریباً ڈیڑھ کروڑ لوگوں کو بھوک کے ہاتھوں موت کا سامنا تھا۔ یہ پولینڈ پر بڑا سخت وقت تھا مالی مشکلات کے سبب پولینڈ کے لیئے ممکن نہ تھا کہ وہ آزاد منڈی سے غلہ خرید سکے۔
پیڈریئوسکی نے امریکہ کے "فوڈ اینڈ ریلیف" ڈیپارٹمنٹ کی انتظامیہ سے رابطہ کیا اور اُن سے مدد کی درخواست کی۔ اس ڈیپارٹمنٹ کا سربراہ "ہربرٹ ہور" نامی ایک امریکی تھا۔
ہور نے پیڈریئوسکی کی مدد کا وعدہ کیا اور فوری طور پر غلے کے جہاز پولینڈ بھجوائے۔ یہ امداد پولینڈ کے لیئے من و سلویٰ سے بڑھ کر تھی۔
پیڈریئوسکی نے ہور کی مدد پر بنفس نفیس امریکہ جا کر ہور کا شکریہ ادا کرنے کا فیصلہ کیا۔ جب دونوں کی مُلاقات ہوئی اور پیڈریئوسکی نے ہور کا شکریہ ادا کرنا چاہا تو ہور نے اُسے ایسا کرنے سے روک دیا اور کہا۔۔!!
"جناب پرائم منسٹر صاحب! آپ کو میرا شکریہ ادا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں، آپ شاید مجھے پہچان نہیں رہے مگر مجھے یاد ہے کہ برسوں پہلے آپ نے دو غریب طالب علموں کی مدد کی تھی اور آپ کی اُس مہربانی کی وجہ سے وہ دونوں اپنی تعلیم جاری رکھ پائے تھے۔"
"جناب پرائم منسٹر! اُن دونوں طالبعلموں میں سے ایک میں ہوں!"

0 comments:

Post a Comment

Thanks for your comments.

 
Blogger TemplateKhushiyon Ka Khazana © 2013. All Rights Reserved. Powered by Blogger
Top