کچھ عرصہ پہلے کی بات ھے میں اپنے ماں باپ کو ریستوران میں کھانا کھلانے لے گیا تھا۔ ریستوران میں صرف ھم تینوں اور ایک عمر رسیدہ میاں بیوی بیٹھے ھوئے تھے۔ میرے نزدیک کی میز ایک شخص آ کر بیٹھ گیا۔ اور بیٹھتے ھی جیب سے فون نکال کر کسی سے باتیں کرنے لگ گیا۔ فون بند کر کے اٹھا اور ھم سب کو مخاطب کر کے کہنے لگا کہ میں آپ لوگوں سے اپنی ایک خوشی شئیر کرنا چاھتا ھوں۔ ابھی فون پر مجھے اطلاع ملی ھے کہ اللہ نے پہلی اولاد کی صورت میں ایک بیٹی سے نوازا ھے۔ پھر ریستوران کے منیجر کو مخاطب کر کے کہنے لگا کہ یہاں بیٹھے ھوئے لوگ آج جو کچھ بھی کھائیں میرے مہمان ھیں اور بل میں ادا کروں گا۔ میں نے اٹھ کر اس سے ھاتھ ملایا اور مبارکباد دی۔ میں نے کہا کہ ھم کھانے کا آرڈر دے چکے ھیں اس لئے مناسب نہیں لگتا کہ بل آپ ادا کریں۔ کہنے لگا کہ میں اپنی خوشی کے لئے یہ کر رھا ھوں آپ برائے مہربانی میری خوشی کی خاطر مجھے بل ادا کرنے دیں۔ میں نے اس کا بہت شکریہ ادا کیا اور اس کی نومولود بیٹی کے لئے نیک خواھشات اور لمبی عمر کی دعا کی۔
چند دنوں بعد میں اپنے بیٹے کو ایک کارٹون فلم دکھانے سینما لے گیا اور لائن میں ٹکٹ لینے کے لئے کھڑا ھو گیا۔ کیا دیکھتا ھوں کہ مجھ سے کچھ آگے وھی شخص کھڑا تھا اور اُس کے ساتھ سات آٹھ سال کا ایک بچہ اور چار پانچ سال کی ایک بچی بھی کھڑی تھی اور دونوں اُسے بابا کہہ کر بلا رھے تھے۔ مجھے بہت تعجّب ھوا۔ اس کے قریب جا کر سلام کیا اور طنزاً کہا کہ آپ کی بیٹی ماشااللہ چند ھی دنوں میں اتنی بڑی ھو گئی ھے۔ اس شخص کا رنگ فق ھو گیا اور مجھے پہچان کر کہنے لگا کہ وہ سب میں نے ایک ڈراما کیا تھا۔ پلیز مجھے غلط نا سمجھیں۔ میں نے پوچھا کہ یہ سب کرنے کی آپ کو ضرورت کیوں محسوس ھوئی؟ کہنے لگا کہ جب میں ریستوران میں داخل ھوا تو واش بیسن پر جا کر ھاتھ دھوئے۔ قریب ھی وہ بوڑھے میاں بیوی بیٹھے تھے۔ شاید ان کی نظر مجھ پر نہیں پڑی تھی۔ بیوی اپنے میاں سے کہہ رھی تھی کہ اللہ کرتا کہ ایک پلیٹ پلاؤ کے پیسے ھوتے آپ کے پاس۔ سال گزر گیا ھے پلاؤ کو چکھے ھوئے۔ اس کے میاں نے کہا کہ میری جیب میں بس اتنے ھی پیسے ھیں کہ ھم سستا سا سوپ پی سکیں روٹی کے ساتھ۔ جب بیرا ان سے آرڈر لینے آیا تو بوڑھے شخص نے کہا کہ بیٹا ھم دونوں بیمار ھیں اس لئے ایک پلیٹ سوپ ایک روٹی کے ساتھ لے آؤ۔ یہ سن کر میں سکتے میں آ گیا اور پھر اپنی میز پر آ کر میں نے وہ فون والا ڈراما رچایا تاکہ وہ بوڑھے میاں بیوی پلاؤ کھا سکیں۔
میں اس سے کہنے لگا کہ پھر آپ کو ھمارا بل دینے کی ضرورت کیوں پیش آئی، صرف اس ضعیف جوڑے کا بل دیے دیتے۔ اُس کے جواب نے میرے دل میں انسان کی عظمت کا احساس جگا دیا۔ کہنے لگا:
"اگر میں صرف ان کا بل ادا کرتا تو ان کی خودداری مجروح ھو جاتی۔ آپ کا بل تو ایک معمولی قیمت ھے میں کسی انسان کی خودداری بچانے کے لئے اپنا سب کچھ بھی بیچ دوں تو یہ سودا مہنگا نہیں ھو گا۔ دنیا کی سب سے مہنگی شے ایک انسان کی خودداری ھے۔"
0 comments:
Post a Comment
Thanks for your comments.