URDU STORIES


ملیحہ مسلسل میٹھی نظروں سے مونا کو کھیلتے ہوئے دیکھ رہی تھی جو اس کی بیٹی شائستہ کی ہم عمر تھی۔ملیحہ اپنی کزن صبیحہ کے گھر آئی ہوئی تھی۔
"بہن!مجھے مونابہت ہی پسند ہے۔اگرچہ ابھی کم سن ہے لیکن ایک بات کہنے کو دل کرتا ہے۔"
ملیحہ نے پان چباتے ہوئے بات شروع کی۔
"ارے ملیحہ!بے تکلفی سے کرو جو بات بھی من میں ہے۔"
صبیحہ نے حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا۔
"وہ بہن،میرا دل کرتا ہے کہ مونا بڑی ہوکر ابصار کی دلہن بن جائے،میرا گھر سج جائے مونا کی من موہنی مسکراہٹ اور کھلکھلاہٹ سے۔"
ملیحہ دل کا مُدعا زبان پر لے آئی۔
"ارے واہ ملیحہ!میرا دل اسی طرح شائستہ کے لئے سوچتا ہے کہ وہ میرے رمیز کی دلہن بن جائے۔"
صبیحہ بھی اپنے مَن کی بات کہہ بیٹھی۔
"ٹھیک ہے پھر،ہم طے کرلیتے ہیں۔مونا میری اور شائستہ تمھاری بہو بنے گی ان شاء اللہ۔"
ملیحہ نے با ت کو حتمی صورت دے دی اور دونوں کزنز ہنستے ہوئے ایک دوسرے سے بغلگیر ہو
**********
"ملیحہ!اتنے بچپن میں ایسی باتیں طے کرنا مناسب نہیں۔ابھی بچے ہیں،نہ جانے بڑے ہوکر کیا سوچیں۔دوسرا وٹہ سٹہ کا طرز ہرگز مناسب نہیں۔"
ملیحہ کے شوہر فراز صاحب یہ بات سن کر پریشان سے ہوگئے۔
"آپ کو تو ویسے ہی پریشان ہونے کی عادت ہے۔بچے ہمارے ہیں اور وہ بڑے ہوکر بھی ہماری بات مانیں گے۔آپ بالکل فکر نہ کریں۔"
ملیحہ نے فراز صاحب کے تمام دلائل رد کردیے اور مستقبل کے سہانے خوابوں کا عکس سوچتے ہوئے مسکرانے لگی۔
**********
وقت گزرتا گیا،بچے جوان ہوگئے اور جوان بوڑھے۔
ملیحہ اور صبیحہ کی سالہا سال پہلے کی طے کی ہوئی خواہش بھی مزید مضبوط ہوچکی تھی۔دونوں اپنی اپنی پسند پر نازاں تھیں۔مونا اور شائستہ دونوں ہی اپنی خوبصورتی میں لاجواب تھیں۔
گھر کے سب افراد اس خواہش سے آگاہ تھے۔رمیز اور شائستہ بھی اس رشتے پر بہت خوش تھے،موناکا بھی سر اپنی والدہ کی خواہش کے آگے خم تھا لیکن ابصار دل سے رضامند نہ تھا۔
ابصار انتہائی سنجیدہ طبیعت کا حامل ایک ذہین نوجوان تھا،کم گوئی اس کی شخصیت کا خاصہ تھی لیکن اس کے برعکس موناایک شوخ وچنچل لڑکی تھی،بات بات پر مسکرانا اور کھلکھلا اُٹھنا اس کی شخصیت کا خاصہ تھا۔
ابصار اپنی والدہ کے سامنے اپنی خواہش کا اظہار کرچکا تھا لیکن اس کی ماں اس کی بات سننے پر قطعاً راضی نہ تھیں۔جو سپنے انھوں نے سالہا سال پہلے بنُے تھے وہ ان سے دستبردارہونے پر تیار نہ تھیں۔دوسرا انھیں انکار کرنے کی صورت میں شائستہ کا رشتہ ختم ہونے کا بھی خوف لاحق تھا۔
**********
ملیحہ اور صبیحہ نے آخرکار شادی کی تاریخ کا تعین کردیا۔ابصار کے علاوہ سب بہت خوش تھے۔فراز صاحب بیٹے کی ناپسندید گی سے آگاہ تھے لیکن ان کی بات کی گھر میں چنداں اہمیت نہ تھی۔
مونا اور شائستہ مل کر تمام شاپنگ کررہی تھیں۔دونوں گھر شادی کی بھرپور تیاریوں میں مصروف تھے۔اور یوں یہ وٹہ سٹہ کی شادی سر انجام پائی۔
ابصار شدید ذہنی تناؤ کا شکار تھا۔شادی کے بعد بھی اس کی مونا سے ہم آہنگی نہ ہوسکی۔وقت کے ساتھ ساتھ ذہنی دباؤ بڑھتا جارہا تھا۔ملیحہ کا خیال تھا کہ شادی کے کچھ عرصے بعد ابصار خوش ہوجائے گا لیکن ایسے ہونے میں نہ آرہا تھا۔
انہی دنوں ابصار کی پوسٹنگ کسی اور شہر میں ہوگئی جہاں وہ اکیلا ہی فوری طور پر منتقل ہوگیا۔وہاں اس کا ذہنی انتشار مزید بڑھتا گیا۔ایک دن کمرے میں ڈیوٹی کے بعد اس کے بائیں بازو میں شدید درد ہونے لگا۔اس نے درد کش گولی کھائی لیکن درد کا افاقہ نہ ہوا۔رات تک درد بڑھتے بڑھتے کندھے اور دل تک آگیا۔سخت تکلیف کی حالت میں اسے ہسپتال لے جایا جا رہا تھا کہ وہ راستے میں ہی دم توڑ گیا۔ پہلا دل کا دورہ ہی جان لیوا ثابت ہوا۔
**********
دونوں گھروں میں صفِ ماتم بچھ گئی۔محض چھبیس سال کا نوجوان بیٹا اور داماد جس کی شادی کو ابھی محض سات ماہ گزرے تھے،یوں اچانک بچھڑ گیا تھا۔ملیحہ اور فراز صاحب کا تو غم سے بُرا حال تھا۔ملیحہ غم سے نڈھال تھی اور اپنے آپ کو ابصار کی جدائی کا قصور وار گردان رہی تھی۔
موناکو اس کے والدین ایک ہفتے بعد ہی گھر لے آئے تھے۔
**********
مونا کی عدت ختم ہوئے ایک ہفتہ ہی گزرا تھا کہ اس کے والدین،رمیز کے ہمراہ ملیحہ کے گھر آگئے۔ملیحہ اور فراز صاحب ان کو دیکھ کچھ ٹھٹھک سے گئے۔
"دیکھو ملیحہ بہن!ابصار کا غم ہم سب کے لئے بہت بڑا ہے۔مونا کا اس جوانی میں بیوگی کا روگ ہم سے دیکھا نہیں جاتا۔اس لئے ہم سب نے فیصلہ کیا ہے کہ مونا کا رشتہ ارمغان سے کردیا جائے۔"
صبیحہ نے فیصلے کے انداز میں بات شروع کی۔
"لیکن صبیحہ!ہم سے تو ابھی ابصار کا غم ہی نہیں بھلایا جارہا کہ ہم اس طرف سوچیں۔دوسرا ارمغان موناسے عمر میں بھی چھوٹا ہے۔"
ملیحہ ابصار کے بعداپنے دوسرے بیٹے ارمغان کا رشتہ اس گھر میں کرنے پر راضی نہ تھی۔
"تم لوگ ایک ہفتہ سوچ لو لیکن یہ ذہن میں رکھنا کہ شائستہ ہمارے گھر میں ہے۔"
صبیحہ کے تیور مکمل طور پر بدلے ہوئے تھے۔
**********
ایک ہفتہ گزر گیا۔ملیحہ اس رشتے پر راضی نہ تھی۔صبیحہ رمیز کی ضد کی وجہ سے شائستہ کو طلاق تو نہ دلوا سکی لیکن شائستہ کی اپنے ماں باپ سے میل ملاقات پر پابندی لگوا دی۔سالہا سال یہ پابندی قائم رہی اور ملیحہ اپنی بیٹی کی جدائی میں گھلتی رہی۔
اب وہ سمجھ چکی تھی کہ بچپن کی طے کردہ نسبت بڑے ہوکر کیسے نقصان دہ ہوسکتی ہے اور وٹہ سٹہ کے کتنے منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں؟
لیکن اس آگہی کو حاصل کرتے کرتے وہ اپنا چاند سے پیارا بیٹا کھو چکی تھی۔


0 comments:

Post a Comment

Thanks for your comments.

 
Blogger TemplateKhushiyon Ka Khazana © 2013. All Rights Reserved. Powered by Blogger
Top