امّاں گھر کے کام میں مصروف تھیں اور ابّا جی صحن میں چارپائی پہ آنکھیں بند کرکے لیٹے تھے۔ میں حسب معمول ان کے پاس جا کے کھڑا ہوگیا انکی نظریں میرے اوپر پڑیں تو انھوں نے مجھے کمرے میں جانے کا اشارہ کیا اور بولے کے میں کھونٹی پہ لٹکی انکی قمیص کی جیب سے اپنا روزانہ کا جیب خرچ " ایک آنہ " نکال لوں۔ ایسا پہلے بھی کئی بار ہو چکا تھا کہ وہ مجھے کہہ دیتے اور میں ایک آنہ انکی جیب سے نکال لیتا تھا۔ پر آج جب میں نے انکی جیب میں ہاتھ ڈالا تو میرے ہاتھ تین آنے لگے۔ ان میں سے ایک آنہ واپس ڈال کے دو اپنے پاس رکھ لیے۔ میں جیسے کمرے سے نکلا تو میرے باپ نے مجھے اپنی طرف بلایا مجھ سے کچھ پوچھے بنا میری جیب میں ہاتھ ڈالا اور ایک زور دار تھپڑ میرے گال پہ رسید کیا۔ وہ تھپڑ اتنا زور دار تھا کہ اسکی آواز کئی سال تک میرے کانوں میں گونجتی رہی، پھر کبھی میں ایسا کچھ کرنے کا سوچ نہیں پایا۔ اس دن مجھے میرا باپ دنیا کا سب سے ظالم باپ لگا۔ کئی بار میرے دل میں یہ سوال اٹھا کہ آخر انھیں اس بات کا پتہ کیسے چلا تھا۔
جب میں جوان ہوا اور میرا باپ ضعیف ہو چکا تھا ۔ ایک دن پاؤں دباتے دباتے میں نے ان سے پوچھ ہی لیا کہ اس دن انھیں کیسے پتا چلا کہ میں نے ایک کی جگہ دو آنے انکی جیب سے لیے۔ انھوں نے بس ایک ہی جواب دیا 'جب باپ بنو گے تو تمہں اس سوال کا جوب مل جائے گا'
پھر وقت بدلا اور اب میں باپ تھا۔ میرے اور میرے بیٹے کے حالات میں بہت فرق تھا۔ دنیا جدید ہوئی تو بڑوں کو بیوقوف بنانا آسان ہوگیا تھا۔ ہر بار جب میرا بیٹا گھر میں داخل ہوتا تو میں اس سے کئی سوال کرتا اور وہ ہر سوال کا تسلی امیز جواب دے کے آگے بڑھ جاتا تھا۔ اور میں اسکی چال دیکھ کے مسکرا دیتا۔ وہ اس بات پہ خوش ہوتا کہ آج پھر سے وہ مجھے بیوقوف بنانے میں کامیاب ہو گیا اور میں اس بات پہ خوش ہوتا کہ مجھے میرے بچپن کے سوال کا جواب مل گیا۔ اور میں خود سے کہتا
" جب باپ اپنے بیٹے کو چلنا سیکھاتا ہے تو وہ اسکے ایک قدم سے دوسرے قدم تک کے فاصلے کا حساب رکھتا ہے اور جب بولنا سیکھاتا ہے تو ہونٹ کے ہلنے سے پلکوں کے جھپکنے تک کا حساب بھی اسکے پاس ہوتا ہے، ادھر حساب میں گڑ بڑ ہوئی نہیں کہ وہ بھانپ لیتا ہے اب بیٹا کس رخ کو چل رہا ہے "
0 comments:
Post a Comment
Thanks for your comments.