صبح فجر کی نماز کے بعد وہ نہر کنارے روانہ ہوتا اس کے ہاتھ میں دو شاپر ہوتے یہ اس کا روزانہ کا معمول تھا ۔۔۔۔۔
شبیر ایک سیدھا سادھا اور رحم دل انسان تھا میں روزانہ دیکھتا اسے ۔۔۔۔
ایک دن میں اس کے ساتھ چل پڑا اور میں نے سوال کرنا شروع کر دیئے ۔۔۔۔
شبیر بھائی روزانہ صبح صبح کہاں جاتے ہیں کہنے لگے نہر کنارے گھومنے جانا میرا روز کا معمول ہے جی ۔۔۔
میں نے پوچھا یہ آپ کے ہاتھ میں کیا ہوتا ہے ۔۔۔؟
کہنے لگے میں اکثر سوچتا ہوں کتنا بدنصیب ہیں انسان ان کے بیدار ہونے سے پہلے پرندے اٹھ جاتے ہیں میں روزانہ ان کے لیے چاول لے کے جاتا ہوں اور دوسرے ہاتھ میں اپنے لیے ناشتہ ہوتا ہے میں روزانہ ناشتہ ان کے ساتھ کرتا ہوں ۔۔۔
جب ہم نہر کنارے پہنچے تو ایک خوبصورت منظر ہمارا منتظر تھا ۔۔۔۔
خوبصورت چڑیاں درختوں پر شبیر کے آنے کی منتظر تھیں ۔۔۔
شبیر آرام سے بیٹھا اور چاول نکال کر چڑیوں کو ڈالا اور خود ایک جانب بیٹھ کر اپنا ناشتہ نکال کر بیٹھ گیا میں بھی ساتھ ناشتہ کرنے لگا ۔۔۔۔
چڑیاں بہت شوق سے چاول کھا رہی تھیں بغیر کسی انسان کے ڈر خوف کے ۔۔۔
اس دوران شبیر نے ڈبل روٹی اپنے کھانے کے لیے اٹھائی تو چند چڑیاں شبیر نے کندھے پر آبیٹھیں شبیر نے ڈبل روٹی کا چھوٹا سا ٹکڑا ہاتھ میں اٹھایا چڑیا شبیر کے ہاتھ سے بہت مزے سےکھانے لگیں ۔۔۔۔
ایسا خوبصورت منظر میری آنکھ نے پہلے کبھی نا دیکھا تھا ۔۔۔۔
شبیر کی بہت سی زندگی اس ہی عمل میں گزر گئی ایک دن شبیر بیمار ہوگیا تو ہسپتال میں بیڈ پر لیٹے ہوئے مجھے مخاطب کر کے کہنے لگا یار ان چڑیوں کا کیا بنا ہوگا کیا سوچ رہی ہوں گی کہ میں بھی آخر انسان ہی نکلا وقت کے ساتھ بدل گیا وہ انتظار کرتی ہوں گی اور میں نہیں جا سکتا ۔۔۔
بات کرتے کرتے شبیر رو پڑا میں نے کہا آپ حوصلہ رکھو اللّه بہتر کرے گا اتنے میں دیکھا کہہ بہت سی چڑیاں ہسپتال کی کھڑکی پر جمح ہوگئیں جیسے شبیر کی عیادت کے لیے آئی تھیں شبیر کے چہرے پے اچانک خوشی کے تاثرات چھا گئے اور ایک عجب سا اطمینان تھا ۔۔۔
یہ سب دیکھ کر میری آنکھ بھر آئی ۔۔۔۔
اب شبیر تو اس دنیا میں نہیں ہے مگر میں اب بھی دیکھتا ہوں اسی مقام پر چڑیاں جمح ہوتی ہیں جیسے سب شبیر کا انتظار کر رہی ہوں یا سب اس کی مغفرت کی دعا کے لیے جمح ہوں میرا جب بھی اس مقام سے گزر ہوتا ہے میری آنکھ میں یاد کے کچھ منظر آجاتے ہیں اور آنکھیں بھیگ جاتی ہیں ۔
0 comments:
Post a Comment
Thanks for your comments.